لڑکی نے گھر کے زیورات‘ چند جوڑے اور جمع پونجی سنبھالی اور باپ کی شریفانہ اور زندگی بھر کی حاصل کی ہوئی عزت کو روند کر رات کے اندھیرے میں محافظ دہلیز کو پار کرگئی۔ پھر وہی ہوا جو عام طور پر ایسی لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے
مسز شمائلہ شازب‘ گوجرانوالہ
محترم حکیم صاحب السلام علیکم!میں اپنی زندگی میں دوسری بار آپ کو خط لکھنے کی جرأت کررہی ہوں‘ اس سے پہلے میں نے ایک حقیقی کہانی بھیجی تھی جو مئی 2010ء کے شمارے کے صفحہ نمبر 18 پر شائع ہوئی تھی اور اب شادی کے بعد ایک بار پھر ایسی ہی کہانی لکھ رہی ہوں امید ہے جب یہ منظر عام پر آئے گی تو پڑھنے والوںمیں سے کسی ایک نے بھی نصیحت حاصل کرلی تو یہ میرے لیے اللہ کا کرم ہوگا۔ میں اور میرے جیسی کئی بیٹیاں جنہیں رحمت کہا گیا ہے۔ جنہیں ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ نے زمانہ جہالت سے اب تک اسے اس کا جائز حق دلایا ‘ اس کی عزت اور آبرو کی حفاظت کو مسلمانوں پر لازم قرار دیا اور والدین سے فرمایا کہ جس نے اپنی ایک بیٹی کی اچھی پرورش کی تو وہ قیامت کے روز جنت میں میرے ساتھ ایسے ہوگا جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں ہوں۔ پھر اسے ماں‘ بیٹی‘ بہن‘ بہو جیسے خطاب سے نوازا۔ مگر۔۔۔ کیوں یہ رحمت آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی جہالت کا منظر پیش کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کیوں۔۔۔ اسے کھلونا سمجھ لیا گیا ہے‘ اس کی معصومیت سے ہر طرح کا فائدہ لیا جارہا ہے‘ جسے میٹھے بولوں اور چند روپوں کے عوض خریدا۔۔۔ کچھ عرصہ کھیلا اور اپنی خواہشات پوری کیں اورجب دل بھر گیا تو کسی کوڑے کی طرح اسے اپنی زندگی سے نکال باہر کیا۔ کچھ ایسا ہی منظر یہ حقیقت پر مبنی کہانی بیان کررہی ہے۔ جس کے ماں باپ نے نہایت سادہ اور پاکیزہ زندگی گزاری اپنی اولاد کی اسلامی اصولوں پر پرورش میں کوئی کسر نہ چھوڑی‘ باپ پانچ وقت کا نمازی‘ تہجد گزار اور حج جیسی سعادت کی بہاریں دیکھ چکا تھا جس کی بیوی کے اخلاق کی تعریفیں تمام گلی محلے میں کی جاتی تھیں لیکن جب اولاد شیطانی رستوں پر چل نکلے تو والدین کی زندگی بھر کی جمع کی ہوئی عزت ذلت میں بدلتے ذرہ برابر بھی دیر نہیں لگتی۔ اس کی تین بیٹیوں اور دو بیٹوں میں سے ایک بیٹی کو محلے کے لڑکے نے جھوٹے سچے خواب دکھانے شروع کردئیے جب باپ نماز کیلئے نکلتا تو لڑکی باہر کی کھڑکی یا گھر کی دہلیز پر آموجود ہوتی آہستہ آہستہ تمام پردہ اور حیا پس پشت کرتی گئی چنانچہ جب نماز کا وقت آتا وہ لڑکا اسے چند الفاظ پیار بھرے لکھ کر اور جھوٹے خوابوں کو سجا کر ایک خط کی صورت میں اسے دے جاتا اور اپنی جھوٹی چاہت کا یقین دلاتا یہ سلسلہ چند ماہ تک جاری رہا پھر شیطان نے لڑکے کے جذبات کو ابھارہ اسے اگلے ہی خط میں لکھا کہ میں دبئی جارہا ہوں اگر تمہیں واقعی ہی میرا ساتھ چاہیے تو والدین کی دہلیز کو پار کرنا ہوگا لڑکی چونکہ اتنا آگے آچکی تھی کہ اسے اگلی زندگی اس عزت والی زندگی سے بہتر دکھائی دینے لگی جنم سے لے کر اب تک ماں باپ‘ بہن بھائیوں کے ساتھ کو چھوڑ کر چند ماہ کی واقفیت کو ذہن میں مضبوط بنانے لگی اپنے اوپر ماں باپ کے کیے ہوئے سائے کو دھکیلنے لگی پھر وہی ہوا جو شیطان نے اسے اکسایا کہ اپنے کل کو بہتر بناؤ باقی کسی کی پرواہ نہ کرو۔ یہ ہی ہے وہ لعنت کیا ہوا شیطان جس نے آدم کی اولاد سے جہنم کو بھر دینے کا خدا سے وعدہ کیا تھا اس نے کہا تھا کہ اس کی وجہ سے مجھے عرش سے فرش پر پھینک دیا گیا میں اسے ہر طرف سے برائی پر آمادہ کروں گا۔ لڑکی نے گھر کے زیورات‘ چند جوڑے اور جمع پونجی سنبھالی اور باپ کی شریفانہ اور زندگی بھر کی حاصل کی ہوئی عزت کو روند کر رات کے اندھیرے میں محافظ دہلیز کو پار کرگئی۔ پھر وہی ہوا جو عام طور پر ایسی لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے لڑکے نے باہر جانے کے جھوٹے بہانے کرکے لڑکی سے رقم بٹوری اور کچھ عرصہ اسی ملک میں رہنے کو کہااور کرائے پر ایک فلیٹ کراچی میں جالیا پکڑے جانے کے خوف سے نکاح کرنا پڑا۔ پیچھے لڑکی کے والدین کی حالت ایسے ہوگئی جیسے کسی مردے کو قبر سے کھینچ کر باہر پھینک دیا گیا ہو‘ ماں نے خود کو بستر سے لگا لیا‘ بھائیوں نے باہر نکلنا تقریباً بند کردیا اور باپ جو اذان ہوتے ہی اپنے قدم مسجد کی طرف لے جاتا‘ محلے والوں کے سوالوں سے بچنے کیلئے گھر میں قیدی بن کر رہ گیا۔ ادھر لڑکی پر لڑکے کی اصلیت ظاہر ہونے لگی‘ دونوں بات بات پر جھگڑنے لگے چند عرصے بعد لڑکی نے جڑواں بچوں کو جنم دیا جن میں ایک لڑکا اور لڑکی شامل ہیں۔ لڑکا نشے کے ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی وارداتیں بھی کرتا تھا۔ لڑکی کی حالت بھی فقیروں سے کم نہ تھی جب دونوں کے پاس گھر سے لوٹی ہوئی جمع شدہ رقمیں ختم ہوئیں اور گھر سے بھاگے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا تو اپنے شہر واپسی کا سوچا لڑکے نے چند ایک چکر لگا کر گھر والوں کی کڑوی کسیلی باتیں سننے کے بعد لڑکی کو اپنے گھر لے گیا اور اپنی چوری اور ڈکیتی جیسی وارداتوں کو وسعت دینے میں دن رات ایک کردئیے۔ چند ایک بار جیل کاٹنے کے علاوہ نہ جانے کتنے بے گناہ لوگوں کا خون بھی کرچکا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں اور مجرم ہونے کے باوجود اسے چھوڑ دیا جاتا۔ اس نے گروہ کے ساتھ مل کر بینک لوٹے اور موقع پر موجود لوگوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹ پھینکتا۔ اگر بیوی اسے اپنے وعدے یاد دلاتی تو اسے مارتا پیٹتا چونکہ وہ اپنے پیچھے تمام راستے کھوچکی تھی لہٰذا یہ سب سہنے پر مجبور تھی۔ اس کے خلاف کئی قتل اور ڈکیتیوں کے مقدمات درج تھے‘ ایک مرتبہ پولیس نے اسے پکڑا مگر وہ جیل توڑنے میں کامیاب ہوگیا‘ عدالت نے اسے اشتہاری قرار دے دیا۔ ایک مرتبہ لاہور میں تاوان وصول کرتے ہوئے سخت پولیس مقابلے میں اپنے ہی جگری ساتھی کی گولی لگنے سے زندگی ہار دی‘ دوسروں کے گھروں کے چراغ بجھانے والے کے آج اپنے گھر میں صف ماتم بچھ گئی‘ اس لڑکے کابڑا بھائی بھی اسی مقابلے میں مارا گیا جبکہ تیسرا اور آخری بھائی بھی اپنے دونوں بھائیوں کے نقش قدم پر چل رہا تھا۔ شوہر کے مرنے کے بعد لڑکی اُس کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہوگئی جسے ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے‘ دیور کی نیت خراب تھی‘ گھر میں ساس کے علاوہ اور کوئی نہ رہتاتھا‘ ساس کی غیرموجودگی میں دیور نے موقع ملتے ہی گھر سے بھاگی ہوئی بھابی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی مگر لڑکی نے اپنا دفاع کرتے ہوئے اُسی کے پسٹل سے اسے گولیوں سے موت کی گود میں سلادیا اور خود زہر کھا کر اپنی زندگی کو موت کے حوالے کرگئی۔ اب اس گھر میں دادی اپنے تینوں بیٹوں اور ایک بہو کو کھونے کے بعد ایک پوتا اور پوتی کے ساتھ اکیلی رہنے پر مجبور ہے۔
یہ دنیا تو ایک کھیتی ہے اس میں بدلہ ویسا ہی ملے گا جیسا آپ بیج بوؤ گے۔ دوسروں کے گھروں میں اندھیرے بھر کر عزت کی چادریں کھینچنے والے کے اپنے گھر میں خوشحالی نہیں دیکھ پاتے۔ دوسروں سے بُرا کرکے ان سے بھلائی کی امید کرنا خود کو دھوکا دینے کے برابر ہے۔ سچ کہا گیا ہے کہ مظلوم کی دعا عرش الٰہی کو ہلا دیتی ہے مظلوموں کی بددعا سے بچو اگر کسی سے بھلائی کروگے تو اللہ تعالیٰ اسے انعام کی صورت میں تمہیں دنیا و آخرت میں ضرور لٹادیتا ہے لیکن تمہیں خبر ہی نہیں کہ وہ کتنا قدردان ہے جو اپنے بندے کی ذرہ برابر کی ہوئی نیکی کو ضائع نہیں کرتا سچ ہے کہ دعاؤں کے علاوہ اور کوئی چیز تقدیر کو نہیں بدل سکتی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں